Monday, November 21, 2011

ثریا کو زمیں پر آسماں سے پھر کس نے دے مارا ۔۔?۔



اسی زمیں سے نمود میری، اسی زمیں پر حساب میرا


اسی زمیں سے نمود میری، اسی زمیں پر حساب میرا
میں پچھلی نسلوں کا خواب بن کر گزرتے لمحوں میں جاگتا ہوں
میں آنے والے دنوں کی آہٹ ہوں، ان زمانوں کو دیکھتا ہوں
جو سارے سینوں میں خواہشوں کے لباس پہنے اُبھر رہے ہیں
میں آنے والی رُتوں کے دامن میں ایسے پھولوں کو سونگھتا ہوں
ابھی تلک جو کِھلے نہیں ہیں
میں ایسے الفاظ سُن رہا ہوں جنہیں مطالب ملے نہیں ہیں
خزاں میں پُھوٹی ہیں میری کلیاں، اُگا ہے خوں میں گلاب میرا
اسی زمیں سے نمود میری، اسی زمیں پر حساب میرا

ستم رسیدوں کی بستیوں کو میری طرف سے نوید پہنچے
ابھرنے والا ہے اب وطن کی زمیں سے ہی آفتاب میرا
کہ میری آنکھوں پہ اُن کے فردا کا حال ظاہر ہے
میں نے دیکھا ہے، وہ شکم کی عظیم دوزخ کو بھرتے رہنے کی
داستاں کو بدل رہے ہیں
کرن کرن جو ترس رہے تھے، اب ان دریچوں سے دُکھ کے سایوں
کو قتل کر کے ضیاء کے لشکر نکل رہے ہیں
میں بادلوں کی نمی ہواؤں کے خشک جھونکوں میں چُھو رہا ہوں
میں جانتا ہوں اب ان زمینوں پہ آنے والے ہیں ایسے موسم
جو خواب جیسے حسین ہیں لیکن حقیقتوں کے لباس میں ہیں

میری طرف سے ستم رسیدوں کی بستیوں کو نوید پہنچے
کہ آنے والے دنوں کے دامن میں اُن کی خوشیاں بسی ہوئی ہیں
میں ان کو مژدہ سُنا رہا ہوں
کہ اُن کی قصے کا ہی تسلسل ہے باب میرا
گلاب بن کر مہکنے والا ہے اب زمانے میں خواب میرا
سلام تجھ کو طلوعِ فردا، ہراول انقلاب میرا
اسی زمیں سے نمود میری، اس زمیں پر حساب میرا

۔۔امجد اسلام امجد

Tuesday, October 11, 2011

عیدالاضحی مبا رک

معلوم نہیں کے آپ نے" پونس آسی نورم " یا احمقوں کا پل کے بارے میں پڑھا یا سنا ہے کے نہیں یہ ایک ایسا فرضی پل ہے جو قابل اور نہ قابل کو ملتا یا جدا کرتا ہے .کراچی میں رہنے والے اصلی پلوں کے ساتھ ساتھ ان فرضی پلوں سے بھی بہت اچھی طرح سے واقف ہیں
ہر سال کی طرح اس سال بھی عید قربان کی تیاریاں شرو ع ہو گئی ہیں
کراچی شہر میں یہ تہوار بہت دلچسپ ہوتا ہے کیوں کے شہری چاہے پل کے اس طرف ہوں یا اس طرف دونوں کے لیں قربانی کرنا آسان کام نہیں ہوتا
عیدالاضحی کے موقعہ پہ سب سے ضروری کام قربانی کا جانور خرید نا ہوتا ہے .کراچی جیسے شہر میں ہر سال لاکھوں کی تعداد میں اہل ایمان الله کی خوشنودی کی خاطر اپنی حیثیت سے بڑھ کر قربانی کرتے ہیں .


Monday, October 10, 2011

ان کو کیا علم کہ کشتی پہ مری کیا گزری دوست جو ساتھ مرے تا لبِ ساحل آئے



لطفِ نظارۂ قاتل دمِ بسمل آئے
جان جائے تو بلا سے‘ پہ کہیں دل آئے


ان کو کیا علم کہ کشتی پہ مری کیا گزری
دوست جو ساتھ مرے تا لبِ ساحل آئے



وہ نہیں ہم کہ چلے جائیں حرم کو اے شیخ!
ساتھ حجاج کے اکثر کئی منزل آئے

آئیں جس بزم میں وہ‘ لوگ پکار اٹھتے ہیں
لو‘ وہ برہم زنِ ہنگامۂ محفل آئے

دیدہ خوں بار ہے مدت سے‘ ولے آج ندیم!
دل کے ٹکڑے بھی کئی خون کے شامل آئے

سامنا حورو پری نے نہ کیا ہے‘ نہ کریں
عکس تیرا ہی مگر تیرے مقابل آئے

موت بس ان کی ہے‘ جو مر کے وہیں دفن ہوئے
زیست ان کی ہے‘ جو اس کوچے سے گھائل آئے