Saturday, February 26, 2011

ستم پہ خوش کبھی لطف و کرم سے رنجیدہ سکھائیں تم نے ہمیں کج ادائیاں کیاکیا


نہ اب رقیب نہ ناصح نہ غم گسار کوئی
تم آشنا تھے تو تھیں آشنائیاں کیا کیا
جدا تھے ہم تو میسر تھی قربتیں کتنی
بہم ہوئے تو پڑی ہیں جدائیاں کیا کیا
پہنچ کے در پہ ترے کتنے معتبر ٹھرے
اگرچہ رہ میں ہوئیں جگ ہنسائیاں کیا کیا
ہم ایسے سادہ دلوں کی نیاز مندی سے
بتوں نے کی ہیں جہاں میں خدائیاں کیا کیا
ستم پہ خوش کبھی لطف و کرم سے رنجیدہ
سکھائیں تم نے ہمیں کج ادائیاں کیاکیا
DSL recording by Zachary Todd


Friday, February 18, 2011

دعا برای کرکٹ ور لڈ کپ ٢٠١١

یَا إِلہَ الْعالَمِینَ بنگلادیش کو کرکٹ ور لڈ کپ ٢٠١١ میں کامیابی عطا فرما آمین
    

Sunday, February 13, 2011

ویلنٹائن ڈے مبارک














تو نے کہا تھا عشق ڈھونگ ہے
تجھے عشق ہو خدا کرے
کوئی تجھ کو اس سے جدا کرے
تیرے ہونٹ ہنسنا بھول جائیں
تیری آنکھ پُر نم رہا کرے
اسے دیکھ کر تو رک پڑے
وہ نظر جھکا کر چلا کرے
تو اس کی باتیں کیا کرے
تو اس کی باتیں سنا کرے
تجھے ہجر کی وہ جھڑی لگے
تو ملن کی ہر پل دعا کرے
تیرے خواب بکھریں ٹوٹ کر
تو کرچی کرچی چنا کرے
تو نگر نگر پھرا کرے
تو گلی گلی صدا کرے
پھر میں کہوں کہ
عشق ڈھونگ ہے۔۔۔۔۔
تو نہیں نہیں کہا کرے

وہ جا چکا ہے...

الوداعیہ

وہ جا چکا ہے
مگر جدائی سے قبل کا
ایک نرم لمحہ
ٹھہر گیا ہے
مِری ہتھیلی کی پشت پر
زِندگی میں
پہلی کا چاند بن کر

پروین شاکر

Thursday, February 10, 2011

ریاست ہاۓ متحدہ امریکا اور پنجاب پولیس کی افیشنسی

ریاست ہاۓ متحدہ امریکا میں چند دہائیوں پھیلے یعنی کے  ویتنام کی جنگ کے بعد انقلابی تبدیلیاں آئیں...جی نہیں میرا اشارہ سلیولسس اور منی سکرٹ کی جانب ہر گز نہیں ہے آپ بھی نہ بس .... میں اس سونچ کی تبدیلی کی بات کر رہا ہوں  جس نے ایک امریکی کی جان کو امریکیوں کی نگاہ میں اپنے ہم پللہ اور کمتر اقوام یعنی پہلی دنیا اور تیسری دنیا دونوں سے افضل بنا دیا ...کسی مشور یوروپین دانشور کا کہنا ہے کے اگر کسی کمزور فرد کو مسلسل یہ باور کرایا جاۓ کے وہ بہت طاقتوار اور مضبوط ہے تو کچھ عرصے کے بعد عین ممکن ہے کے وہ ہو ہی جاۓ           ...    
Nusrat Fateh Ali Khan - Yeh Jo Halka Halka Suroor by ahmedshaikh

برسوں کے بعد دیکھا اک شخص دلربا سا

برسوں کے بعد دیکھا اک شخص دلربا سا
اب ذہن میں نہیں ہے پرنام تھا بھلا سا

ابرو کھچے کھچے سے آنکھیں جھکی جھکی سی
باتیں رکی رکی سی، لہجہ تھکا تھکا سا

الفاظ تھے کہ جگنو آواز کے سفر میں
بن جائے جنگلوں میں جس طرح راستہ سا

خوابوں میں خواب اس کے یادوں میں یاد اس کی
نیندوں میں گھل گیا ہو جیسے کہ رتجگا سا

پہلے بھی لوگ آئے کتنے ہی زندگی میں
وہ ہر طرح سے لیکن اوروں سے تھا جدا سا

اگلی محبتوں نے وہ نا مرادیاں دیں
تازہ رفاقتوں سے دل تھا ڈرا ڈرا سا

کچھ یہ کہ مدتوں سے ہم بھی نہیں تھے روئے
کچھ زہر میں بُجھا تھا احباب کا دلاسا

پھر یوں ہوا کے ساون آنکھوں میں آ بسے تھے
پھر یوں ہوا کہ جیسے دل بھی تھا آبلہ سا

اب سچ کہیں تو یارو ہم کو خبر نہیں تھی
بن جائے گا قیامت اک واقعہ ذرا سا

تیور تھے بے رُخی کے انداز دوستی کے
وہ اجنبی تھا لیکن لگتا تھا آشنا سا

ہم دشت تھے کہ دریا ہم زہر تھے کہ امرت
ناحق تھا زعم ہم کو جب وہ نہیں تھا پیاسا

ہم نے بھی اُس کو دیکھا کل شام اتفاقاً
اپنا بھی حال ہے اب لوگو فراز کا سا