لے گا اور کیا ظالم امتحان شیشے کا
انگلیوں پہ ہیرے کی، ہے نشان شیشے کا
پتھروں سے ڈرتا ہوں، آندھیوں سے ڈرتا ہوں
جب سے میں نے ڈالا ہے اک مکان شیشے کا
بے کراں سمندر میں مختصر جزیرہ ہے
کشتیاں ہیں پتھر کی، بادبان شیشے کا
اعتزاز یہ بستی سائے کو ترستی ہے
سارے چھت ہیں شیشے کے، سائبان شیشے کا
No comments:
Post a Comment