Saturday, March 26, 2011

دیکھو بچے کی شکل میرے سے ملنی چاہئیے عقل بھلے نہ ہو

اثر اس کو ذرا نہیں ہوتا
رنج راحت فزا نہیں ہوتا

بے وفا کہنے کی شکایت ہے
تو بھی وعدہ وفا نہیں ہوتا
ذکرِ اغیار سے ہوا معلوم
حرفَ ناصح برا نہیں ہوتا

کس کو ہے ذوقَ تلخ کامی لیک
جنگ بن کچھ مزا نہیں ہوتا

تم ہمارے کسی طرح نہ ہوئے
ورنہ دنیا میں کیا نہیں ہوتا

اس نے کیا جانے کیا کیا لے کر
دل کسی کام کا نہیں ہوتا

امتحاں کیجیے مرا جب تک
شوق زور آزما نہیں ہوتا

ایک دشمن کہ چرخ ہے نہ رہے
تجھ سے یہ اے دعا نہیں ہوتا

آہ طولِ امل ہے روز افزوں
گرچہ اِک مدعا نہیں ہوتا

نارسائی سے دم رکے تو رکے
میں کسی سے خفا نہیں ہوتا

تم مرے پاس ہوتے ہو گویا
جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا

حالِ دل یار کو لکھوں کیوں کر
ہاتھ دل سے جدا نہیں ہوتا

رحم کر خصم، جانِ غیر نہ ہو
سب کا دل ایک سا نہیں ہوتا

دامن اس کا جو ہے دراز تو ہو
دستِ عاشق، رسا نہیں ہوتا

چارہ دل سوائے صبر نہیں
سو تمھارے سوا نہیں ہوتا

صبر تھا اک مونس ہجراں
سو وہ مدت سے اب نہیں ہوتا

کیوں سنے عرض مضطر اے مومن
صنم آخر خدا نہیں ہوتا

03 Asar usko zara nahin hota by talat aziz

No comments:

Post a Comment